Thursday, February 5, 2009

Wo Jo Dukhoon Se Haar Jatay Hain

وہ جو دکھوں سے ہار جاتے ہیں
عاطف علیم

وہ جو عمر بھر دکھوں سے لڑتے ہیں بزدل نہیں ہوتے ۔عمر دین اداس اور بشریٰ رمضان بھی بزدل نہیں تھے۔لڑنا بہادروں کا شیوہ ہے ۔ بزدل تو رزم گاہ میں اترے بغیر ہار مان لیتے ہیں، ان کی جیب میں مطالبات کی کوئی فہرست ہوتی ہے نہ آنکھوں میں خوابوں کی جوت ۔انہیں تو بس سانسوں کی گنتی پوری کرنا ہوتی ہے سو وہ قدموں کی دھول بنے جیسے تیسے زندگی کے دن کاٹ دیتے ہیں۔دکھوں سے لڑنے والے اندر سے بہت زندہ اور توانا لوگ ہوتے ہیں۔وہ سوتے جاگتے خواب دیکھتے ہیں ۔کوئی لاکھ سمجھائے، ہزار دلیلیں لائے ، ڈرائے یا دھمکائے ان کیلئے اپنے خون میں بلوئے ہوئے خوابوں سے دستبردار ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ وہ اپنے خوابوں کیلئے جیتے ہیں اور انہی کیلئے اپنی جان دے دیتے ہیں۔ان کے اندر ایک بہت توانا انکار ہوتا ہے۔وہ کھلی آنکھوں سے دنیا کی بندر بانٹ کو دیکھتے ہیں اور یہ بات ماننے سے انکاری ہوجاتے ہیں کہ ساری روٹیاں تو بندر لے اڑے اور ان کے ہاتھ میں آئے تو صرف حرف تسلی آئے۔
عمر بھر دکھوں سے لڑنے والے بہادر ہوتے ہیں اور تنہائی بہادروں کا نصیب ہوتی ہے۔ان بے تیغ سپاہیوں کو عمر بھر کہیں سے کمک نہیں ملتی کہ ان کے ارد گرد ایسے لوگ ہوتے ہیں جو لڑے بغیر اپنی ہار مان لیتے ہیں۔انہیں اپنے لہو کا پرچم تنہا ہی اٹھانا ہوتا ہے۔عمر دین اداس اور بشریٰ رمضان بھی اپنی لڑائی میں تنہا تھے۔ان کے پاس جیتے جاگتے خواب تھے اور ان کے اندر ایک توانا حرف انکار تھا۔کوئی حرف تسلی، کوئی وعدہ فردا انہیں اپنے گردا گرد ہونے والی بندر بانٹ کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر آمادہ نہ کرسکا۔وہ تنہا تھے ، نہتے تھے اور ان کا حریف ناقابل شکست۔ایک نہ ایک دن انہیں ہارنا ہی تھا سو وہ ہار گئے۔جس مضحکہ خیز اور سفاک نظام کے ساتھ ان کی لڑائی تھی اس سے کون جیت پایا ہے سوائے ان کے جو اتنے سادہ تھے کہ کوئلے سے راکھ بن گئے یا اتنے ہوشیار کہ قینچی کی طرح کاٹتے ہوئے اپنا راستہ بنا گئے۔اس نظام کے مقابل جو بھی آیا ہار گیا اور مارا گیا۔وہ دونوں ہاری ہوئی سپاہ کے بہادر سپاہی تھے۔غنیم کے اسلحہ خانہ میں ان کے نام کے ڈیزی کٹر بھی موجود تھے ۔انہیں ہار جانا تھا اور مرجانا تھالیکن وہ دونوں بہادر تھے ان کا دشمن انہیں نہیں ہرا سکا ، وہ ہارے تو اپنے
خوابوں سے ، اپنے دکھوں سے ۔
عمر دین اداس اور بشریٰ رمضان کے مطالبات کوئی ایسے نہ تھے کہ پورے نہ کئے جاسکتے۔ان سے پہلے بھی جن لوگوں نے خود کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کیا وہ بھی قومی خزانے سے ڈیڑھ ارب روپے کی مالیت کے کسی محل کے خواہاں نہ تھے۔وہ تو صرف آبرومندی سے جینے کے حق کے طلبگار تھے۔ان کے خواب بھی بہت سادہ تھے۔عمر دین اداس اپنی بہن کو جہیز دے کر رخصت کرنا چاہتا تھا۔صرف یہ چاہتا تھا کہ عمر بھر کی محرومیوں اور ذلتوں کا مارا ہوا اس کا بوڑھا باپ اپنی زندگی کے آخری دن آسودگی سے کاٹ لے۔اس کی ماں بچوں کی شادیوں جیسے معصوم ارمان پورے کرسکے اور اس کے بھائی پر زندگی کا سفر تھوڑا آسان ہوجائے۔اس کیلئے وہ اپنا چھوٹا سا کاروبار سیٹ کرنا چاہتا تھا۔اس نے تو کسی سے کچھ نہیں مانگا تھا۔وہ تو اپنی محنت بیچ کر دوسروں کیلئے قدم بھر زمین اور کھڑی بھر آسمان خریدنا چاہتا تھا۔یہ کون ایسے ناقابل تعبیر خواب تھے کہ وہ ان سے دستبردار ہوجاتا؟۔اور بشریٰ رمضان؟اس نے بھی اپنے لئے ایسا کیا مانگ لیا تھا کہ اس کیلئے موت کا فرمان صادر کرنا ضروری ٹھہرتا؟۔اس کے خواب بھی کیا خواب تھے کہ شوہر کا ویلڈنگ کا کاروبار جم جائے۔گھر میں خوشحالی نہ سہی ، غربت کی کاٹ تھوڑی کم ہوجائے۔اس کے دونوں معصوم بچوں کو بھلے ان کی ضرورت کے مطابق پلنے بڑھنے کیلئے عمدہ غذا نہ ملے لیکن وہ خالی پیٹ تو سکول نہ جائیں۔یہ تو طے ہے کہ ایک ویلڈر کے بچے ان سکولوں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے جہاں چمکتے چہروں والے بچے ’’بابا بلیک شیپ‘‘ گایا کرتے ہیں اورجن کے امپورٹیڈ سکول بیگز میں لنچ باکس کے ساتھ ایک خوشحال اور مضبوط مستقبل کی گارنٹی بھی موجود ہوتی ہے۔لیکن یہ دھڑکا تو نہ ہو کہ گلی محلے کی سکول نما دکانوں میں بھی انہیں فیس ادا نہ کرنے کی پاداش میں انہیں روز پچھلے بنچوں پر کھڑا کردیا جائے گا اور پھر ایک دن سکول کے حاضری رجسٹر سے ان کا نام مٹا کر انہیں تاریک راہوں میں دھکیل دیا جائے گا۔یہ خواب بھی کوئی خواب تھے؟۔اگرکوئی انہیں بیچنے نکلے تو مارکیٹ ریٹ کے مطابق ان کی قیمت انسانی زندگی کی قیمت سے تو بہرحال کم ہوگی۔
عمر دین اداس اور بشریٰ رمضان اپنی آخری توانائیوں تک ان خوابوں کیلئے رزم گاہ میں اپنے لہو کا پرچم تھامے رہے جن کی تعبیر پانا انسانی حقوق کے کسی بھی چارٹر کے تحت ان کا ازلی حق تھا۔ان کا غنیم، ایک سفاک اور غیر انسانی معاشرہ اس قدر تنگ دل ہے کہ اسے یہ بھی گواراہ نہیں کہ خط غربت سے نیچے دھکیلے جانے والے لوگ اپنے معصوم اور ارزاں خوابوں کی تعبیر پاسکیں۔دوسری طرف یہ معاشرہ اور یہ نظام اتنا لکھ لٹ کہ صاحبان والا شان قلم کی ایک جنبش سے کروڑوں اربوں کی رقم اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں اور وہ ہر احتساب سے نہ صرف صاف بچ نکلتے ہیں بلکہ موقع پاکر دوبارہ اپنی کاری گریاں دکھانے کو آموجود ہوتے ہیں۔
خیر، تو ہوا کیا؟ ۔ہوا یہ کہ عمر دین اداس اور بشریٰ رمضان رزم گاہ میں لڑتے لڑتے جینے کی امنگ کھوتے رہے اور جب اپنی جیت کے آخری امکان سے بھی محروم ہوگئے تو وہ رزم گاہ سے باہر نکل آئے۔انہوں نے اپنے اندر کچہری لگا لی، ایک ون مین جیوری جس میں وہی منصف تھے اور وہی ملزم۔انہوں نے خود کو اپنی فرد جرم پڑھ کر سنائی جو صرف ایک الزام پر مشتمل تھی ، یہ کہ قصور کسی کا بھی ہو لیکن وہ اپنے خوابوں کو مرنے سے نہ بچا سکے۔سو انہوں نے اپنی آنکھوں سے مردہ خوابوں کو نوچا اوراپنی موت کا فیصلہ سنا دیا، ہینگ ٹل ڈیتھ۔عمر دین اداس اسلام آباد کے آبپارہ چوک میں نکل آیا اور نہایت سکون سے اپنی کنپٹی پر پستول رکھ کر ٹرائیگر دبا دیا۔رہی بشریٰ تو اس نے خود رحمی کا شکار ہوئے بغیر اپنے شوہر کیلئے کھانا پکایا ، اپنے بچوں کو سکول سے لیا اور سیون اپ پھاٹک پر چلی آئی۔ایک ماں نے اپنی کوکھ میں پالے اور گود میں کھلائے بچوں کو عبرتناک زندگی جینے کیلئے غیر انسانی معاشرے کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔اس نے اطمینان سے ٹرین کے آنے کا انتظار کیا اور اس کے مناسب فاصلے پر پہنچتے ہی اس نے اپنے بچوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور۔۔۔
اس کے بعد میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا ۔ابھی جانے کتنی ون مین جیوریاں لگنی باقی ہیں اور جانے کتنے عمر دین اداس اور بشریٰ رمضان اپنی باری کیلئے قطار بنائے کھڑے ہیں۔شاید مجھے کسی سے یہ کہنا تھا کہ خدارا کمزوروں، خاک نشینوں کے معصوم خوابوں کو ہلاک کرنے کا سلسلہ بند کردو۔جو جینا چاہتا ہے اسے جینے دو لیکن میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا کہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں ، کوئی اپیل نہ کوئی مطالبہ۔Good Luck to Lost Warriors!

No comments:

Post a Comment

Dear blog visitor, Thanks for visiting my blog.